ٹیچر نے بورڈ پر کام لکھتے ھو ئے کہا، غور سے دیکھ لکھ لو بچوں ھوم ورک ٹھیک ہو نا چاہیے
بلال ایکسکیوزمی سر!
سر جی بولو بلال! سر نماز کا وقت ھو رہا ہے کیا میں نماز پڑھ سکتا ھوں؟
سر نے لکھنا چھوڑ کے بلال کو دیکھا؛ بلال ان طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا-
ٹیچر نے کہا بلال آپ کی اتنی ضروی کلاس ہو رھی ہے – نماز بعد میں پڑھ لینا ان کی آواز میں خفگی تھی- بلال پھر مخاطب ھوا سر میں بس ابھی آ جاوں گا-
سر نے بلال سے مخاطب ہو کر کیا کہا؟
اب سر بہت غصے سے بلال سے مخاطب ہوئے بورڑ کے امتحان سر پر ہیں اور آپ کلاس سے جانا چاہتے ھو؟
اور یہ کیا آپ نے نماز، نماز کی رٹ لگا رکھی ھے گھر جا کے پڑھ لینا اور اب آرام سے بیٹھ جاو اور مجھے پڑھانے دو انھوں نے سختی سے کہا اور کلاس کی طرف متوجہ ھوئے سوال مکمل کر کے وہ مڑے تو بلال کو ویسے ہی کھڑا پایا-
کیا بات ہے بلال آپ کلاس کو کیوں ڈسٹرب کر رہے ھو؟
سر وہ نماز……؛
پھرنماز” دیکھو آپ جب سکول میں داخلہ لینے آئے تھے تو تم کو سکول کےرولز کا فارم دیا گیا تھا اس میں لکھا تھا کے کلاس کے دوران آپ کہیں نہیں جا سکتے-
اگر آپ کو نماز کا اتنا ہی شوق تھا تو کسی مدرسہ میں داخلہ لتیے ۔
سر اللہ کا حکم تو ہر جگہ چلتا ہے سکول ہو یا مدرسہ؟
ٹیچر کو امید نہ تھی کے بلال ایسا جواب دے گا ان کا غصہ عروج پہ پہنچ گیا…تم…آپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟
سر میں صرف آپنے آپ کو اللہ کابندہ سمجھتا ھوں۔
سر ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اس کا حکم ہم سب پہ لاگو ہے اور میرے خیال میں ہم سب کو کو شش کرنی چاہیے کے ہم اس کی تعبداری میں جی جان سے لگے رہیں-
بلال کی بات سن کرکیوں سب دنگ رہ گئے
بلال نے اطمینان سے اپنا مقصد بیان کیا، سب بلال کے اس راویہ سے دنگ رہ گے۔
سر کا اپنے غصہ پر قابو نہ رہا وہ اونچی آواز سے بولے بدتمیزتم ایک بدتمیز لڑکے ہومیں تم کو پرنسپل کے پاس لے کر جاوں گا، نکل جاو میری کلاس سے-
بلال باہر آیا اس نے موقع کو غنیمت جانا فورا نماز ادا کی پریڈ کو ختم ھونے میں 15منٹ باقی تھے۔
پریڈ ختم ھوا تو سر غصے سے لال ھوتے باہر آئے انھوں نے سخت لہجے سے کہا کے میرے ساتھ آو، اور پرنسپل کے کمرے کی طرف چل دیے سارے لڑ کے کھڑکی سے باہر سر نکال کر بلال کو دیکھ رہے تھے۔
مے آئ کم ان سر! ٹیچر نے اجازت طلب نظروں سے پرنسپل کو دیکھا-
یس پلیز،، پرنسپل نے مسکرا کے کہا ٹیچر اور بلال کمرے میں داخل ہوئے-
پرنسپل نے بلال کو ٹیچر کے ساتھ دیکھ کر سوالیہ نظروں سے دیکھا؟
ٹیچر نے مخاطب ہو کر کہا سر!
یہ بچہ کلاس میں پرابلم کر رہا ہےدوران کلاس یہ کلاس چھوڑ کر یہ نماز پڑھنے جانا چاہتا ہے، اس کی وجہ سے سب بچے کلاس میں ڈسٹرب ہو رہے ہیں اور یہ ٹیچرز کے ساتھ بدتمیزی بھی کرتا ہے سرکا بس نہں چل رہا تھا کہ اسک سکول سے ہی نکلوا دیں۔
وہ ہر برائ اس کے کھاتے میں ڈال رہے تھے۔
پرنسپل صاحب نے بلا ل سے کیا کہا؟
پرنسپل صاحب بلال سے مخاطب ہوے!
بلال آپ کیوں پڑھائ میں دھیان نہیں دیتے اور نماز کا کیا معاملہ ہے اگر آپ کو نماز پڑھنی ہو تی ہے تو گھر جا کہ پڑھ لیا کرو؟
بلال سر میں جب گھر پہنچتا ہوں نماز کا وقت ختم ھو جاتا ہے۔
سر میں پڑھائ سے نہیں بھاگتا مگر نماز ہم سب پہ فرض اور ہمیں چاہیے کہ ہم نماز ہر حال میں اور ہر جگہ پابندی سے ادا کریں اور میں نماز نہیں چھوڑ سکتا میری امی کہتی نماز ہم سب پہ فرض ہے اور حضور پاک صل للہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
پرنسپل نے کہا ! ٹھیک ہے لیکن یہ سکول ہے اور سکول کے اندر سکول کے رولز کو مانا جاتا ہے اور ان کوامپلی مینٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن سر یہ اللہ کی زمین ہے اور یہاں اللہ کا حکم مانا جانا چاہیےاوراس کو امپلی مینٹ کروانا چاہیے۔
بلال کیوں اتنا دل بر داشتہ تھا؟
بلال آفس سے باہر آ گیا۔ وہ ہہت دل بر داشتہ تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک اسلامی ملک میں اس کی نماز کو اتنا ایشو بنایا جادہا تھا بلال اسکول کے وقفے میں بھی افسردہ رہا۔
اب وہ راستے میں ہی نماز کو ادا کرتا سکول سے نکلتا تو بس پر سوارھوتا اور قریب کی مسجد میں جا کر پہلے نماز ادا کرتا بس نکل جا تی مگر وہ پرواہ نہ کرتا نماز ادا کر کے پیدل گھر کی طرف روانہ ھو جاتا نماز کے بعد آپنے ٹیچر اور آپنے ساتھوں کےلیے دعا کرتا کہ اللہ عزوجل ان کو بھی نماز کی توفیق دے اور ہمارے ملک کے ہر سکول میں نماز کی پابندی لازمی کردے۔
اللہ تعالیٰ نے بلال کی دعا کیسے قبول کی؟
اس دن بھی وہ بریک میں لاونج میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کے اس نے ٹیچر کو آتے دیکھا اس نے سوچا کے شاید سر پرنسپل کے روم میں جا رہے ہیں۔
مگر اس وقت اس کی انتہا نہیں رھی جب سر نے اس سے آ کر کہا ! بلال مجھے معاف کردو۔
بلال کو آپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
وہ دوبارہ مخاطب ہوے!
بلال تم کو معلوم ہے کل جمعہ تھا میں سکول سے گھرجا رہا تھا میرے راستے میں مسجد آتی ہے میں نہ کل دیکھا کہ نابینا شخص وہاں جمعہ کے لیے جا رہا تھا راستے میں کیچڑ تھا ان سے چلا نہیں جا رہا تھا اور وہ کپڑوں کو بچاتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔
میں بھی ان پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ وہ ۔سجد میں داخل ھوے میرے دل میں نا جانےکیا آیا ۔یں بھی ان کے پیچھے مسجد میں داخل ھو گیا مولوی صا حب خطبہ دے رہے تھے۔
وہ نماز کی اہمیت اور فضیلت بتا رہے تھے کہ نماز مسلمان اور غیرمسلمان میں فرق پیدا کرتی ھے نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور جو شخص جان بجھ کے نماز قضا کرے گا قیامت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اسکی طرف سے منہ پھر لیں گے اور کبھی اس کی قضا قبول نیہں ھوگی اس کے دماغ ہانڈیوں میں ابالا جائے گا اور ایک بہت بڑا سانپ اس کے سینے پہ بیٹھا دیا جائے گا جو اسے قیامت تک ڈستا رہے گا ۔سر مخاطب ہوے
سر کے رونتگٹے کیوں کھڑے ہوگئے تھے؟
بلال!
مولانہ صاحب کے بیان نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے مجھے اس وقت تمھاری نماز کی پابندی یاد آئی اور محجھے احساس ہوا کہ نماز ہمارے لیے قیمتی اور اللہ کے غضب سے بچنے کا زریعہ ہے۔
اس وقت میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج کے بعد میں کبھی نماز نہیں ترک کروں گا، بلکہ اپنے پریڈ میں ہر روز دو چار منٹ بچوں کے ساتھ نماز کی اہمیت اور فضیلت پہ بات کروں گا۔
بلکہ ھو سکا تو ہم پرنسپل سے کیہں گے کہ سکول میں ایک مسجد بھی بناہیں۔
سر بول رہے تھے اور بلال اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ جس نے اس کی دعا کو نہ صرف قبول کیا بلکہ یہ راستہ بھی دے دیا کہ ہمیں کس منزل پہ جا نا ہے۔ آمین)